22 رمضان المبارک
یوم شہادت
مجاہد جنگ آزادی 1857، حضرت مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی رحمتہ اللہ تعالی علیہ۔
مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی مجاہدِ جنگِ آزادی 1857ء نگینہ ضلع بجنور کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ کو انگریزحکومت نے 16 رمضان المبارک 1274 ہجری کو گرفتار کرلیا۔ دوران اسیری آپ کے جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی اور زخموں پر نمک مرچ چھڑکی گئی
بالآخر 22 رمضان المبارک 1274 ہجری کو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس عاشق کو چوک مرادآباد میں برسرعام تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
جب پھانسی کا حکم سنایا گیا، مولانا کافی علیہ الرحمہ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ تک جاتے ہوئے، آپ کی زبان پر آپ کے مشہور زمانہ تازہ نعتیہ کلام کے یہ اشعار نہایت بلند آواز سے جاری تھے:
کوئی گُل باقی رہے گا ، نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ ﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں ہو تم
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی ، ولیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پرسخن رہ جائے گا
پھانسی کے بعد مولانا کافی رحمتہ اللہ علیہ کی تدفین جیل مرادآباد کے قریب ہی عمل میں آئی۔ پھانسی کے 35 سال بعد آپ کی قبر کھل گئی تھی، دیکھا تو جسم بالکل سلامت تھا۔ مولانا محمد عمر نعیمی مرادآبادی کے نانا شیخ کرامت علی ٹھیکیدار نے جسم کو دوسری جگہ عقب جیل میں منتقل کر کے دفن کر دیا۔
اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ الرحمن کو مولانا کافی علیہ الرحمہ سے بڑی عقیدت تھی اور اپنے کلام میں آپ کو سلطان نعت گویاں فرمایا ہے:
مہکا ہے میرے بوئے دہن سے عالم
یاں نغمہِ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافی سلطانِ نعت گویاں ہے رضا
ان شاء اللہ میں وزیر ِ اعظم
پرواز میں جب مدحتِ شہ ﷺ میں آوں
تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاوں
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضا
کافی کا دردِ دل کہاں سے لاوں
اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
0 Comments