Namaz e Janaza k Baad Dua karna Kaisa dalail k sath |نمازجنازہ کے بعد دعا کرنا کیسا؟

 *دعا بعد از نماز جنازہ*


_نمازجنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن ، حدیث اورعملِ صحابہ ، سب سے ثابت ہے ۔_



*قرآن عظیم میں فرمایا : فاذافرغت فانصب ۔ (الشرح۷)*


*صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں*:

 اذافرغت من الصلاۃ فانصب فی الدعاء واسأل اللہ وارغب الیہ ۔

یعنی جب آپ نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں کوشش کریں اور اللہ تعالی سے مانگیں اوراس کی طرف متوجہ ہوں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴، تفسیرابن ابی حاتم الرازی ج۲۱ص۷۲۴)


*جناب قتادۃ اس آیہ مقدسہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :* 

امرہ اذافرغ من صلاتہ ان یبالغ فی الدعاء ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوحکم دیا ہے کہ : جب اپنی نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں مبالغہ کریں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴،چشتی)


اس آیۂ مقدسہ سے ہر نماز کے بعد دعاء کا جائز ہونا ، بلکہ شرعا مندوب و مطلوب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور واضح بات ہے کہ نمازجنازہ بھی تو نماز ہے ، پھراس کے بعد دعاء ناجائز کیسے ہوجائے گی ؟


*سوال*

اوراگرکوئی کہے کہ نمازجنازہ نماز نہیں ، یا اس آیۂ مقدسہ سے نمازجنازہ مراد نہیں 

*جواب*

تو ہم اسے کہں گے : ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین۔فاذلم یأتوابالشھداء فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون ۔


اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :

*اذاصلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعاء ۔ جب میت پرنمازپڑھ چکوتواخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعاء کرو ۔* (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۸۷۲، سنن ابن ماجہ۶۸۴۱، السنن الکبری للبیہقی ج۴ص۰۴، صحیح ابن حبان رقم الحدیث۱۴۱۳، الدعاء للبطرانی رقم الحدیث ۷۰۱۱)


اس حدیث میں ”فاخلصوا“ فرمایا …… یعنی ”فاء“ لائی گئی …… اورامام رازی ”المحصول“ میں اور امام عبید اللہ بن مسعود رحمہ اللہ تعالی ”التوضیح“ میں رقمطرازہیں : الفاء للتعقیب ۔ فاء تعقیب کے لیے آتی ہے ۔ (المحصول ج۱ص۳۷۳، التوضیح ج۱ص۰۹۳)

اور امام بدرالدین زرکشی ذکرفرماہیں : الاجماع علی ان الفاء للتعقیب ۔ یعنی فاء کے تعقیب کے لیے ہونے پراجماع ہے ۔ (البحرالمحیط ج۳ص۷۹۱)


*لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ : نمازجنازہ سے فارغ ہو کر میت کے لیے اخلاص سے دعا کرو ۔*

مالکم لاتنطقون ؟ فلیأتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین !!!


اورنہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنے کاحکم فرمایا …… بلکہ نماز جنازہ کے بعد خود دعاء فرماتے بھی رہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروالاخیکم وسلوالہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل ۔

نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوجاتے تواس کی قبرپہ کھڑے ہوکرفرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء کرو ، اوراس کے لیے ثابت قدمی کاسوال کرو …… کیونکہ اس سے اس وقت سوال کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث ۴۰۸۲)


اور دفن کے بعد دعاء کرنا ، نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتا ہے …… پس نمازجنازہ کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ بلکہ تدفین کی تکمیل سے پہلے …… یعنی دوران تدفین دعا کرنا بھی واردہوا ہے …… جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین وغیرہ کی روایت کے کلمات ہیں : مر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بجنازۃ عندقبروصاحبہ یدفن فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استغفروالاخیکم سلوااللہ لہ التثبیب فانہ الآن یسأل ۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قبرکے پاس رکھے ایک جِنازہ کے پاس سے گزرے جبکہ قبروالے کودفن کیاجارہاتھا …… تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء مانگواوراللہ تعالی سے اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کروکیونکہ وہ ابھی سوال کیا جائے گا ۔ (مستدرک علی الصحیحین رقم الحدیث۰۲۳۱) ، امام حاکم نے اس حدیث کوصحیح قراردیا ہے ۔


اورنمازجنازہ کے بعد، دفن کرنے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعاء فرمائی ہے …… واقدی رحمہ اللہ تعالی نے جنگ مؤتۃ کے بیان میں روایت کیا ہے : لماالتقی الناس بمؤتۃ جلس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی المنبر وکشف لہ مابینہ وبین الشام فھوینظر الی معترکھم فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اخذ الرأیۃ زیدبن حارثۃ…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال استغفروالہ فقد دخل الجنۃ وھویسعی۔ثم اخذ الرایۃ جعفر بن ابی طالب…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ودعالہ ثم قال استغفروالاخیکم فانہ شھید، دخل الجنۃ فھویطیرفی الجنۃ بجناحین من یاقوت حیث یشاء من الجنۃ ۔

جب مؤتۃ میں جنگ شروع ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منبر اقدس پرجلوہ فرماہوئے اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اورشام کے درمیان سے پردے ہٹا دئیے گئے……پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے معرکہ کودیکھ رہے تھے۔پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:زیدبن حارثۃ نے جھنڈاپکڑا……یہاں تک کہ وہ شہیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑہی، پھر فرمایا:ان کے لیے مغفرت کی دعاکرو، پس تحقیق وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر جناب جعفر بن ابی طالب نے جھنڈاپکڑا…………یہاں تک کہ وہ شھیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑھی اوران کے لیے دعافرمائی۔ پھرفرمایا:اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاکرو، کیونکہ وہ شھید ہیں، جنت میں داخل ہوگئے۔پس وہ جنت میں یاقوت کے دوپروں کے ساتھ جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑرہے ہیں ۔ (المغازی للواقدی ص۲۶۷،چشتی)

یہ حدیث واضح طورپرفرمارہی ہے کہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جناب زیدبن حارثہ کی نمازجنازہ اداء کرنے کے بعداپنے صحابہ کوان کے لیے دعائے مغفرت کاحکم فرمایا……یونہی جناب جعفربن ابی طالب کی نمازجنازہ کے بعد خودبھی دعاء فرمائی اورپھراپنے صحابہ کوان کے لیے مغفرت کی دعاکاحکم فرمایا ۔ وللہ الحمد ۔


جس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعددعاء فرمائی ، یونہی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی نمازجنازہ کے بعددعاء کرنا مروی ہے …… جناب سعیدبن مسیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : حضرت ابن عمرفی جنازۃ فلماوضعھافی اللحد قال:بسم اللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، فلمااخذ فی تسویۃ اللبن علی اللحد قال اللھم اجرھامن الشیطان ومن عذاب القبراللھم جاف الارض عن جنبیہاوصعدروحھاولقھامنک رضوانا۔قلت:یاابن عمر اشئ سمعتہ من رسول اللہ ام قلتہ برأیک؟قال انی اذالقادرعلی القول بل شیئ سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماکے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔پس جب آپ نے اسے لحدمیں رکھاتوآپ نے کہا:اللہ کے نام سے اوراللہ کی راہ میں اوررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملت پر۔پس جب لحدپرکچی اینٹیں برابرکرنے لگے توکہا : اے اللہ!اسے شیطان سے اورقبرکے عذاب سے پناہ عطا فرما ۔ اے اللہ ! زمین کواس کی دونوں کروٹوں سے جدافرما اوراس کی روح کواوپرپہنچااوراسے تیری خوشنودی عطافرما ۔ میں نے کہا:اے ابن عمر!یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنی ہے یاآپ نے اپنی رائے سے کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تب تومیں بہت کچھ کہہ سکتاہوں …… بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث۲۴۵۱،چشتی)


اس حدیث سے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا عمل معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نمازجنازہ کے بعد ، تدفین کی تکمیل سے پہلے میت کے لیے دعاء کی …… وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سیکھا …… اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی نمازجنازہ کے بعد ، اس کی تدفین کی تکمیل سے پہلے اس کے لیے دعافرمائی ۔


ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔ یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث 19447)


حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے …… فرمایا : وضع عمربن الخطاب علی سریرہ فتکنفہ الناس یدعون ویثنون ویصلون علیہ قبل ان یرفع وانا فیھم ۔

جناب عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کوآپ کی چارپائی پر رکھا گیا تولوگ آپ کو گھیرے میں لے کر ، چارپائی اٹھانے سے پہلے آپ کے لیے دعاء اور ثناء کرنے لگ گئے اورمیں بھی ان دعاء کرنے والوں میں تھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ۹۰۴۳، صحیح مسلم رقم الحدیث ۲۰۴۴)

یہ حدیث تو صاف دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام میں نمازجنازہ کے بعد …… چارپائی اٹھانے سے پہلے دعاء کرنا بھی رائج تھا ، اوراسی لیے وہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی چارپائی اٹھانے سے پہلے ان کے لیے دعاء وثناء میں مصروف رہے ۔


عمیربن سعید کہتے ہیں : صلیت مع علی علی یزید بن المکفف فکبرعلیہ اربعاثم مشی حتی اتاہ فقال:اللہم عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ فانالانعلم منہ الاخیراوانت اعلم بہ ۔

میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں یزید بن المکفف کی نمازجنازہ اداء کی توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھرچل کر ان کے قریب آئے اورکہا : اے اللہ!تیرابندہ اورتیرے بندے کابیٹاآج تیرے پاس حاضر ہواہے۔پس تواس کے گناہ کوبخش دے اوراس پراس کے مدخل کوکشادہ فرما، پس بے شک ہم اس سے بھلائی ہی جانتے ہیں اورتواسے زیادہ بہتر جاننے والاہے ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ ج۳ص۲۱۲،چشتی)


ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔

یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں ۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث ۱۹۴۴۷)


حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن سلام سے متعلق مروی ہے کہ ان سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازجنازہ فوت ہوگئی …… پس جب وہ پہنچے توفرمایا : ان سبقتمونی بالصلاۃ علیہ فلاتسبقونی بالدعاء لہ ۔ اگرتم ان پرنمازمیں مجھ سے سبقت کرگئے ہوتوان کے لیے دعاء میں مجھ سے پہل مت کرو ۔ (المبسوط ج۲ص۷۴۴، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۶۸۲)

بلکہ بدائع الصنائع میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازاداء فرمائی ۔ پس جب فارغ ہوئے توحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اوران کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے تو آپ نے دوبارہ نماز اداء کرنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نے ان سے فرمایا : الصلاۃ علی الجنازۃ لاتعاد ولکن ادع للمیت واستغفرلہ ۔

جنازہ پر نماز دہرائی نہیں جاتی …… لیکن تم میت کے لیے دعا اور استغفار کرو ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۵۸۲)


الحاصل : نمازجنازہ کے بعد میت کو دفن کرنے کے بعد ، تدفین کے دوران ، اور تدفین سے پہلے …… ہر وقت دعاء کرنا قرآن ، حدیث نبوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعلِ شریف ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال سے ثابت ہے …… بلکہ تدفین کے بعد دعاء ، جو نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتی ہے ، سے متعلق تو کثیر احادیث موجود ہیں ۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اس سے متعلق ایک مستقل باب باندھاہے ۔ لیکن اگراس کے باوجود کوئی یہی رٹ لگائے جائے کہ نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنا جائز نہیں ، بدعت ہے ، گمراہی ہے ، اور لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش میں لگا رہے تواس کے لیے ہدایت کی دعاء ہی کی جاسکتی ہے ۔ (مدثر ہاشمی)

Post a Comment

0 Comments